*اسلامی ریاست اور مسلم ریاست کی تقسیم*
مذکورہ بالا اس تقسیم کے بارے میں مختصر یہ ہے کہ ” كلمة حق أريد به الباطل ” .
یعنی 【ظاہر میں تو یہ اچھی تقسیم لگتی جبکہ اپنی بغل میں خطرناک تکفیری سوچ کو چھپائے ہوئے ہے 】
اس کی مثال یوں لے لیں کہ دو آدمی ہیں
ان میں سے ایک مسلمان ہے اور دوسرا ہندو یعنی پاک و ہند ۔
اب جو مسلمان ہے اس کے بہت سارے عقائد و اعمال غیر اسلامی ہیں
جبکہ ہندو تو خیر اسلامی و غیر اسلامی کا قائل ہی نہیں ہے اور نہ اسے اس کی پرواہ ہے۔
اب جوکہ مسلمان ہے ہم اس شخص کے بارے میں اسلامی اسٹیٹس کی بنیاد پر رائے قائم کرتے ہیں تو کیا شرعی موقف ہوگا؟
جواب: ظاہر ہے کہ جب اسلامی اسٹیٹس کی بات آئے گی تو ہم بلا جھجک پہلے شخص کے متعلق یہی کہیں گے کہ یہ مسلمان ہے جس کی وجہ اس کے اسلامی عقائد و نظریات ہیں اور لاکھ بد عملی کے باوجود اس کے چند اہم ایسے اسلامی اعمال ہیں جنہیں دیکھ کر ہم اسے مسلمان کہتے ہیں اگرچہ وہ جرائم پیشہ ہی کیوں نہ ہو۔
تو معلوم ہوا کہ کسی کو مسلمان اس وقت تک ہم کہہ ہی نہیں سکتے جب تک وہ اپنے آپ کو اسلامی ثابت نہ کرے اور اسلامی ثابت کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے وہ اپنے آپ کو چوتھے آسمان کی معصوم نورانی مخلوق ہونے کا ثبوت دے بلکہ ایسا اصول تو غالی قسم کے تکفیری خوارج کا ہی ہوسکتا مگر اہل سنت کے نزدیک اسلامی ثابت کرنے کے لئے ایمان اور اسلام کے ارکان اور چند فرائض ہیں جن سے ایک بندہ یا ریاست اسلامی قرار پاتا ہے۔
لہٰذا اسلامی اور مسلمان تو لازم وملزوم باتیں ہیں کہ اگر بندہ مسلمان ہے تو وہ اسلامی ہی ہے تو وہ مسلمان ہے۔
رہی بات اس مسلمان کی بے عملی اور گمراہی کی تو وہ اپنی جگہ پر مسلّم ہے کہ اس کی بے عملی اور گمراہی بے شک غیر اسلامی ہے مگر اس بنا پر اسی ایک شخص کو اسلامی اور مسلمان کی تقسیم میں بانٹ دینا اور فتوی لگانا کہ تم اسلامی نہیں ہو مگر مسلمان ہو تو یہ نظریہ قریب قریب معتزلہ کے عقیدہ سے مماثلت رکھتا ہے جوکہ ایک کبیرہ گناہوں کے مرتکب کو کافر بھی نہیں کہتے ہیں مگر اسلام میں داخل بھی نہیں سمجھتے ہیں۔ اللہ المستعان
بہرحال
یہی مثال ریاست پاکستان یا کسی بھی اسلامی ریاست کے متعلق ہے کہ
عقیدہ اہل سنت کے مطابق عین ممکن ہے کہ ایک ریاست کا نظام ظالمانہ اور گمراہ کن ہو۔
یعنی وہاں کے ارباب اقتدار نہ تو ہدایت پر ہوں اور نہ اسلامی طریقہ (سنت) پر ہوں بلکہ ان میں ایسے لوگ ہوں جوکہ انسان کے دھڑ میں شیطان کا دل لگے ہوئے ہوں۔
اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو یہی حکم دیا کہ سمع و اطاعت انہی مسلمان حکمرانوں کی ہی ہو گی جو کہ ایک اسلامی ریاست کے سربراہ ہیں ۔
اور ایک اسلامی ریاست اور مسلمان حکمران کی عدم موجودگی کی صورت میں یہ نہیں کہا ہے کہ وہاں کے غیر مسلم یا مسلم گروہوں میں گھس کر کسی اسلامی ریاست کے خلاف اسی ریاست کے دشمن کے ترجمان بن جانا !!
بلکہ حکم دیا ہے کہ ہر قسم گروہوں سے الگ تھلگ ہوجاو۔
یہاں تک کہ اگر کسی درخت کی جڑ کو اپنی ڈارھوں کیساتھ پکڑ کر مرتے دم تک صبر کرنا پڑے تو یہی بہتر ہوگا
🔖
لہٰذا ایک اسلامی ریاست کے بنیادی ارکان درج ذیل ہیں:
1- وہ ریاست مسلمانوں کا وطن ہو ( یہ چیز مشترکہ طور پر پاک و ہند دونوں ممالک پر صادق آتی ہے کیونکہ دونوں ممالک مسلمانوں کے وطن ہیں )
2- وہاں کی حکومت مسلمان ہی چلاتے ہوں ( یہ چیز صرف پاکستان پر صادق آتی ہے ہندوستان اس سے محروم ہے بلکہ وہاں پر صہیونی ہندو طاغوت کا تسلط ہے )
3- وہاں اسلامی شعائر کی آزادی ہو ( یہ بات پاکستان پر کلی طور پر صادق آتی ہے حتی کہ یہ ریاست جہاد کا فریضہ تک سرانجام دینے کے لئے ہمہ وقت مستعد اور چاک و چوبند ہے اور
{ وَأَعِدُّوا۟ لَهُم مَّا ٱسۡتَطَعۡتُم مِّن قُوَّةࣲ وَمِن رِّبَاطِ ٱلۡخَیۡلِ تُرۡهِبُونَ بِهِۦ عَدُوَّ ٱللَّهِ وَعَدُوَّكُمۡ ۔۔۔۔ الآیہ کا مصداق ہے۔
جبکہ ہندوستان جوکہ صہیونی ہندو طاغوت کے زیر تسلط ایک اسلامی وطن ہے وہاں پر اسلامی شعائر کی آزادی اس طرح نہیں ہے جسطرح کہ ایک اسلامی ریاست میں ہونی چاہیئے اور اگر آزادی ہے بھی صحیح تو جزوی ہے اور وہ بھی مسلم اکثریتی علاقوں اور شہروں میں ہے اور اب تو ہر وقت کسی بھی وقت فتنے کا ڈر لگا رہتا ہے )۔
📌
لہٰذا دنیا میں دو ہی قسم کی ریاستیں ہیں:
– ایک اسلامی ریاست جس میں مختلف کیٹیگری ہیں جیسے عہدنبوی، خلافت راشدہ ، ملوکیت ، قتل و غارت کرکے مسلط ہونے والی حکومت ، کسی بیرونی طاقت کے تعاون سے مسلط ہونے والی حکومت، طاغوتی نظریہ سیاست ڈیموکریسی کے ذریعے گدھوں کی طرح لپک کر کرسی پر مسلط ہونے والی حکومت ۔ ۔ ۔ الغرض بہت سے حکومتی فتنے ہیں ان سب کے باوجود اہل سنت کا اصول اور ضابطہ ایک ہی ہے کہ حاکم وقت خواہ شرعی طریقے سے اختیار کیا گیا ہو یا غیر شرعی طریقوں میں سے کسی بھی ایک طریقے سے مسلط ہوا ہو البتہ اس کی حکومت کے نفاذ کے بعد اس کا حکم شرعی ولی الأمر کا ہو جاتا ہے
اور کرسی تک پہنچے کیلئے اس نے جو بھی جرائم کئے ہیں ان کا اللہ تعالٰی کے سامنے جواب دہ وہ خود ہوگا ۔
– دوسری غیر شرعی ریاست ہے جس میں اسلامی ریاست کے ارکان و شرائط میں کوئی بھی ایک چیز مفقود ہو جیساکہ ہندوستان ہے جہاں پر اسلامی شعائر کی آزادی بتدریج خطرے میں ہے اور اس سے بھی بڑھ کر وہاں ہر صہیونی ہندو طاغوت مسلط ہے ۔
إن قسموں کے علاوہ تیسری قسم کا وجود نہیں ہے ھوی پرستی میں مبتلا ہو کر بعض حضرات بیچ میں سے ایک نیا راستہ نکالنا چاہتے ہیں۔
اور اس سلسلے میں آخری بات یہ عرض کرتا ہوں کہ اسلامی ریاست اور مسلمان ریاست کا یہ فرق اور تقسیم
ہمارے ہاں حزبی سروری حضرات کی ایجاد کردہ ہے جوکہ مسلم حکمرانوں کی دو قسمیں بناتے ہیں:
شرعی اور غیر شرعی
جبکہ اہل سنت کے نزدیک مسلم حکمران خواہ خلیفہ راشد ہو یا ظالم و جابر اور گمراہ ہو خواہ کسی بدعتی فرقے سے بشرطیکہ کفر بواح کا مرتکب نہ ہو الغرض مذکورہ بالا کسی بھی قسم سے ہوں وہ شرعی امیر و حاکم کی کیٹیگری میں ہی آتے ہیں ۔
اور ہمارے ہاں غیر شرعی حاکم صرف غیر مسلم و کفر بواح کا مرتکب حکمران ہوتا ہے۔
لہٰذا یہ تقسیم اہل بدعت چھپے ہوئے اخوانیوں کی گھڑی ہوئی ہے۔
ہمارے قابل احترام سلفی مشائخ اور طلاب کو اس من گھڑت فلسفے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
والله أعلم بالصواب


Leave a comment