دیوبندی یا بریلوی امام کے پیچھے نماز

محض اس امام کو دیکھنا ہے جس کے پیچھے آپ نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہیں
لہٰذا کوئی بھی ایسا امام خواہ دیوبندی ہو یا بریلوی یا کسی بھی قسم کا بدعتی ہو اگر تو آپ بعینہ اس امام پر اسلام سے خارج ہونے کا فتوی لگا سکتے ہیں تو بلا شبہ اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں مگر بصورت دیگر آپ کی نماز ہوگی۔
لیکن اگر آپ اس امام کی تکفیر معین بھی نہیں کر سکتے اور نہ اس کے پیچھے نماز کے قائل ہیں تو پھر آپ اپنا محاسبہ کریں کیونکہ آپ بذات خود بدعت میں مبتلا ہیں ۔
اور بالفرض اگر آپ اس امام کی تکفیر معین بھی کردیتے ہیں تو پہلے آپ کا تصفیہ ہوگا کہ آیا آپ خوارج یا معتزلیت کی گمراہی میں تو مبتلا نہیں ہیں۔

والله أعلم بالصواب.
@
امام چاہے صوفی ماتریدی دیوبندی  ہو یا صوفی ماتریدی بریلوی ہو یا کوئی شیعہ جہلمی اہل حدیث ہو یا خارجی نام نہاد جہادی اہل حدیث ہو یا سیاسی اخوانی اہل حدیث ہو یا حزبی کٹر تحریکی مودودی اور قطبی اہل حدیث ہو یا اجماع کا منکر ظاہری نام نہاد اہل حدیث ہو ۔ ۔ ۔
الغرض کسی بھی قسم کا بدعتی ہو !
اگر اسے خالص سلفی سنی اہل حدیث إمام میسر نہیں ہے مستقل طور پر یا عارضی طور پر کسی نماز میں !
بہر حال ایسے آئمہ کے پیچھے نماز پڑھنے سے پہلے دیکھ لے کہ سامنے جو امام مصلے پر کھڑا ہے آیا کہ وہ بدعتی ہونے کے باوجود اسلام میں داخل ہے یا نہیں
اس کی بدعت مکفرہ تو نہیں ہے
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اس إمام کو اسلام سے خارج نہیں قرار دے سکتے ہیں تو اس بدعتی کے پیچھے نماز پڑھی جائے گی۔
اور نماز درست ہوگی۔
بصورت دیگر اگر آپ اس معین امام کی تکفیر معین کے قائل ہیں تو ظاہر ہے آپ اس کے پیچھے نماز تو نہیں پڑھیں گے
مگر آپ پر لازمی ہے کہ آپ اپنا چیک اپ ضرور کروائیں کہ
کہیں آپ سے اس إمام کی تکفیر کرنے میں خوارج والی غلطی تو نہیں سرزد ہوئی ہے ۔

والله أعلم بالصواب

نوٹ #
【دیکھیں جس طرح ایک مؤمن سے گناہ صغیر و کبیرہ سرزد ہوسکتے ہیں اسی طرح اس سے کفر و شرک یا بدعت بھی سرزد ہو سکتی ہے۔
اسی طرح بدعتی اور صاحب بدعت میں فرق ہے کہ بدعتی اپنے گمراہ کن اصولوں کی وجہ سے بدعتی ہوتا ہے خواہ ظاہر میں وہ کتنا ہی متبع اور نیک ہی کیوں نہ نظر آئے
جبکہ صاحب بدعت ہونے کا مطلب بدعتی ہونا ضروری نہیں ہے
بلکہ  اس سے مراد یہ ہے کہ اس شخص سے کوئی بدعت سرزد ہو گئی ہے یا اس کا کوئی موقف خطا کے طور پر بدعت ہے】

بعض حضرات ہر بدعتی امام کے بارے میں تکفیر معین کے مرتکب ہوتے ہیں!
جبکہ اہل سنت جب عقائد بیان کرتے ہیں تو اس کے ضمن میں تکفیر مطلق بیان کرتے ہیں۔
اور عقائد کے باب میں تکفیر معین کا سہارا لیکر فتوی صادر کر دینا بعینہ خوارج اور تقریبا معتزلہ کا منہج ہے ۔
ہم نماز کے مسئلے میں معین شخص کی بات کر رہے ہیں جوکہ مصلی پر کھڑا امام ہے اور کسی بھی معین شخص پر فتوی صادر کرنے کے لئے صرف اس کے ذاتی عقائد کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا اور دیکھا جائے گا کہ آیا  وہ ساری بدعات اور فاسد عقائد کے باوجود اسلام میں داخل ہے یا اسلام سے نکل چکا ہے بہرحال اگر وہ اپنی بدعات کے باوجود بھی اس کا اسلام اور توحید قائم ہے تو ایسے شخص کے پیچھے نماز کو جائز نہ سمجھنا سلفی منہج نہیں ہے بلکہ اہل بدعت کا مسلک ہے۔
جبکہ کسی غیر اہل حدیث کی اس کے بدعتی علماء اور جماعت کی وجہ سے تکفیر معین کرنا اور اسے اسلام سے خارج قرار دینا بعینہ خوارج کی غلیظ ترین بدعت ہے۔
  والله أعلم بالصواب.

Leave a comment