جہاد تو چودہ سو سال پہلے سے فرض ہے اور جہاد کے اصولوں میں سے ہے کہ قیامت تک ریاست اور اس کے ادارے ہی جہاد کی اصل اتھارٹی ہیں جبکہ ایک مخصوص مذہبی سیاسی طبقہ ( خوارج اور معتزلہ ) ہمیشہ سے حکمرانوں کی بے عملی اور دین سے دوری کو دلیل بنا کر اس قانون کو اپنے ہاتھوں میں لیتا آیا ہے۔
اور ان کے جہاد کا محاذ ہمیشہ اسلامی ریاست میں ہی کھلتا ہے اور مسلمانوں کے مال و جان کی حرمت پامال کی جاتی ہے۔
جس کے رد میں آئمہ اہل سنت نے یہ مسئلہ عقائد کی کتب میں درج فرمایا ہے کہ قیامت تک جہاد حکمران کی قیادت میں ہی رہے گا خواہ وہ نیک ہوں یا برے ہو
اب کیونکہ امت بیدار ہوچکی ہے
اور الحمد للہ ریاست پاکستان اور دیگر اسلامی ریاستوں نے فتنہ خوارج کے قلع قمع کرنے کا بیڑا سرکاری طور پر اٹھا لیا ہے
تو ایسی صورتحال نے اس مذہبی طبقے کو محتاط ہونے پر مجبور کر دیا ہے جس کی وجہ سے اب یہ لوگ ڈیموکریسی کے پلیٹ فارم کو منافقانہ انداز میں استعمال کرتے ہوئے ریاست میں عدم استحکام کی فضاء قائم کرنے کے لئے وہی خوارج اور معتزلہ کا ہتھکنڈا استعمال کر رہے ہیں جبکہ جہاد ایک جنگ ہے جس کا تعلق سوائے عسکری ادارے کے کسی سے نہیں ہے۔
جہاں تک جہاد کی مشروعیت کا تعلق ہے وہ تو آج سے چودہ سو سال پہلے ہی طے ہوچکا ہے کہ جہاد فرض ہے اور اس کی دو صورتیں ہیں ایک فرض کفایہ اور دوسری فرض عین اور یہ فریضہ ریاست کا ہے لہٰذا اس بات کا فیصلہ بھی وہی کرے گا جسے فرض ادا کرنا ہے کہ کیا اقدامات کرنے ہیں اور اس سلسلے میں ان پر کیا فرض ہے اور کتنا فرض ہے۔
باقی رہی بات اس مذہبی طبقے کی جوکہ ہمارے ملک میں جہاد کے اعلانات کر رہے ہیں ان کی حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لوگ
قطر میں بیٹھے سی آئی اے اور موسا د کی علماء کمیٹی کے ایجنڈے پر لبیک کہتے ہوئے نکلے ہیں تاکہ غزہ کے تباہی کیساتھ ساتھ مسلم ممالک میں عدم استحکام کی فضاء قائم کی جائے اور وہ ریاست جوکہ اپنی دفاعی صلاحیات پر کسی قسم کی سودا بازی نہیں کرسکتی اس کے ساتھ غزہ کے مظلوموں کے نام پر مذاق کیا جاسکے۔
لہٰذا اس طبقے کی سفاکیت کا یہاں سے اندازہ لگایا جاسکتا کہ ایک طرف تو جہاد کے نام پر مسئلہ فلسطین کو عرب ریاستوں کے ہاتھوں سے کافی حد تک ہائی جیک کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں جس کی سزا مظلوم عوام نے بھگتی ہے اور دوسری طرف پوری امت اسلامیہ کو بلیک میل کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہوچکے ہیں
بس اب اس بات کا انتظار ہے کہ پاکستان جیسی مضبوط دفاعی طاقت کو کب اپنی باندی بنا کر ناچ نچوایا جائے۔
الله المستعان وعليه التكلان ولاحول ولاقوة إلا بالله العلي العظيم.


Leave a comment