Khalid Al-Huzaifi
-
*اسلامی ریاست اور مسلم ریاست کی تقسیم* مذکورہ بالا اس تقسیم کے بارے میں مختصر یہ ہے کہ ” كلمة حق أريد به الباطل ” . یعنی 【ظاہر میں تو یہ اچھی تقسیم لگتی جبکہ اپنی بغل میں خطرناک تکفیری سوچ کو چھپائے ہوئے ہے 】اس کی مثال یوں لے لیں کہ دو آدمی ہیں
-
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ : ” ایک دن اور ایک رات کا پہرہ دینا ایک ماہ کے رزوں اور قیام اللیل ( نوافل ) سے افضل ہے ۔اور اگر ( وہ پہرہ دینے والا اسی
-
الله المستعان!یہ نام نہاد انقلابی طبقہ صہیونی ایجنڈے پر بڑے اخلاص سے کام کرتا ہے اور اپنے ملک و قوم کی خیر خواہی کو اسلام کیساتھ غداری سے تشبیہ دیتا ہے اور مظلوم مسلمان اگر اپنی تکلیف کا اظہار تک بھی کر دیں تو ان پر کفر کے فتوے تک لگانے سے دریغ نہیں کرتا
-
*انسان پر شیطان سب سے پہلی بیڑی اسطرح لگاتا ہے کہ زبان کو ذکر ( الہی ) سے جکڑ دیتا ہے لہٰذا جب زبان جکڑی دی جاتی ہے تو اعضاء قابو میں آجاتے ہیں ۔* 🔖اللہ تعالٰی کا فرمان ہے کہ { ٱسۡتَحۡوَذَ عَلَیۡهِمُ ٱلشَّیۡطَـٰنُ فَأَنسَىٰهُمۡ ذِكۡرَ ٱللَّهِۚ ۔۔۔ }ان پر شیطان نے غلبہ حاصل
-
*یہ جو سب کچھ ابھی ہو رہا ہے* اسی تحریکی جذبہ جہاد کا ہی تو نتیجہ ہے جسے دشمن نے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے بڑے شاطرانہ انداز میں خوب استعمال کیا ہے لہٰذا اب مزید کیا فتوحات کرنا چاہتے ہیں آپ ؟!!اپنے ہوش کے ناخن لیں یہ ” دعاة علی أبواب جهنم ”
-
محض اس امام کو دیکھنا ہے جس کے پیچھے آپ نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہیں لہٰذا کوئی بھی ایسا امام خواہ دیوبندی ہو یا بریلوی یا کسی بھی قسم کا بدعتی ہو اگر تو آپ بعینہ اس امام پر اسلام سے خارج ہونے کا فتوی لگا سکتے ہیں تو بلا شبہ اس کے پیچھے
-
مسلح جہاد کے نعروں اور فتوی بازی کے متعلق مصر کی دار الإفتاء کا بیان* ● – *جہاد کسی شخصی یا گروہی فیصلہ کا نام نہیں ہے بلکہ جائز ریاست کی ذمہ داری ہے* ● – *غیر مجاز جماعتوں اور گروہوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ جنگ اور جہاد کے معاملات میں فتوی
-
کل تک جہاد کیلئے کسی فوج یا حکمران قیادت کی شرط کا مذاق اڑانے والے آج جب وقتِ جہاد آیا تو کہتے ہیں کہ ہم پرائیویٹ جہاد کو نہیں مانتے ہیں بلکہ فتوی دیتے ہیں کہ پاکستان فوج پر جہاد فرض ہوگیا ہے لہٰذا ہم یہ بیٹھے یہاں پر اور آپ ریاست پاکستان کو جنگ
-
جہاد تو چودہ سو سال پہلے سے فرض ہے اور جہاد کے اصولوں میں سے ہے کہ قیامت تک ریاست اور اس کے ادارے ہی جہاد کی اصل اتھارٹی ہیں جبکہ ایک مخصوص مذہبی سیاسی طبقہ ( خوارج اور معتزلہ ) ہمیشہ سے حکمرانوں کی بے عملی اور دین سے دوری کو دلیل بنا کر
